حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام خمینی سے فضائيہ کے اہلکاروں کی 8 فروری 1979 کو تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر ملک کی فضائيہ اور فوج کے ائير ڈیفنس شعبے کے بعض کمانڈروں نے رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای سے 5 فروری 2024 کو حسینیہ امام خمینی میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس تاریخی واقعے کی اہمیت اور اسلامی معاشرے کے خواص کے طبقے کی کلیدی حیثیت اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔(1) خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم.
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
آپ تمام عزیز بھائيوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور دل کی گہرائيوں سے ملک کے کسی بھی حصے میں کام کرنے والے اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائيہ کے تمام زحمت کش اہلکاروں پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔ عید بعثت کی پیشگي مبارکباد پیش کرتا ہوں، عشرۂ فجر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، بائيس بہمن (11 فروری انقلاب کی سالگرہ) کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ ان شاء اللہ فضائیہ کی کامیاب کوششوں کا مستقبل، ان پچھلے کچھ عشروں کی طرح ہی روشن اور پیشرفت والا مستقبل ہوگا۔
ہماری آج کی ملاقات ہر سال کی طرح 19 بہمن 1357 (8 فروری 1979) کے حیرت انگیز واقعے کی سالگرہ کی مناسبت سے ہے، واقعی وہ بہت حیرت انگيز واقعہ تھا۔ اس واقعے کے بارے میں خود میں نے آپ عزیزوں سے مختلف ملاقاتوں میں بارہا تفصیل سے بات کی ہے اور اس واقعے کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے لیکن میرے خیال میں اس واقعے میں جو سبق اور عبرتیں ہیں، وہ لامتناہی ہیں۔ خدا کے لیے شجاعت و ایثار کے ساتھ کیا جانے والا کام ایسا ہی ہوتا ہے، بابرکت ہو جاتا ہے۔ خداوند عالم ان تمام کاموں میں برکت عطا کرتا ہے جو اس کے لیے انجام پاتے ہیں۔ برکت عطا کرتا ہے کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ اس کے اثرات اور اس کے ثمرات ختم نہیں ہوتے، جاری رہتے ہیں، برکت کے معنی یہ ہیں۔ وہ واقعہ بھی ایسا ہی ہے، ہم نے اس واقعے سے ملنے والے اسباق کو بار بار دوہرایا ہے، پیش کیا ہے، ان پر گفتگو کی ہے، میرے علاوہ دوسروں نے بھی، خود آپ لوگوں نے، دوستوں نے، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے عہدیداروں نے اور دوسرے لوگوں نے اس بارے میں باتیں کی ہیں لیکن پھر جب انسان اس واقعے پر نظر ڈالتا ہے تو پاتا ہے کہ اس میں ابھی بھی سیکھنے کی، سبق حاصل کرنے کی گنجائش ہے۔ آج میں انہی میں سے ایکی بات کے بارے میں گفتگو کروں گا جو میرے خیال میں اہم ہے۔
فضائیہ نے انقلاب سے جڑنے میں سبقت حاصل کی۔ البتہ فوج کا ڈھانچہ، کہ جو ایک اچھا، عوامی، مسلمان اور مومن ڈھانچہ تھا، آسانی سے انقلاب سے جُڑ گیا لیکن سب سے آگے فضائیہ تھی۔ سب سے پہلے تو 8 فروری کی بیعت کے ذریعے جب فضائيہ کے اہلکاروں نے اس حیرت انگیز واقعے کو وجود عطا کیا اور پھر شاہی گارڈ کی فورسز کے مقابلے میں استقامت کے ذریعے بھی، جب شاہی گارڈ نے 10 فروری کی رات موجودہ شہید خضرائي ٹریننگ سینٹر میں جو فضائیہ کے اہلکاروں کی ٹریننگ کا سینٹر تھا حملہ کر دیا تو فضائيہ والوں نے استقامت دکھائي۔ اس وقت فضائیہ کے جو اہلکار وہاں تھے انھوں نے ہتھیاروں کے گودام کے دروازے کھول دیے، لوگوں کو ہتھیار دیے، مزاحمت کی، انقلابی افراد اور نوجوان بھی جوش میں آ گئے اور میدان میں پہنچ گئے، خود اس علاقے میں بھی فضائیہ کی مدد کے لیے پہنچے اور تہران میں بھی نکل پڑے۔ مجھے خود یاد ہے کہ رات کے بارہ یا ایک بجے تھے، ایران روڈ پر جہاں ہمارا گھر تھا، نوجوان سڑک پر آ گئے تھے اور چیخ رہے تھے کہ فضائیہ والوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، لوگو! باہر نکلو! لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر ان کی مدد کے لیے جا رہے تھے۔ یہ انقلاب سے جُڑنے میں فضائیہ کا ایک بڑا قدم تھا۔
میں جو نکتہ بیان کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے: یہ جو پیشقدمی انجام پائي، یہ انقلاب کو رفتار عطا کرنے والا عنصر بن گئي، آج کا نکتہ یہ ہے۔ یہ 8 فروری کی تاریخ تھی، اس ٹریننگ سینٹر کے واقعات کا مرکز 9 اور 10 فروری کی تاریخ تھی، 11 فروری کو انقلاب کامیاب ہو گيا، کام تمام ہو گيا اور قوم فتحیاب ہوئي۔ اس واقعے کی رفتار عطا کرنے کی طاقت پوری طرح عیاں ہے۔ ہر کام میں، رفتار عطا کرنے والے عنصر کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ میں بعد میں رفتار عطا کرنے والے عنصر کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ فضائیہ نے اپنے اس کام سے، لوگوں کی امید کو دوگنا کر دیا۔ انقلابی افراد سڑکوں پر شاہی گارڈ وغیرہ سے مقابلے میں مصروف تھے، اس کام نے لوگوں کی امید کو اور لوگوں کی شجاعت کو بڑھا دیا جبکہ فریق مقابل کے، انقلاب مخالف کے، دربار کے اور اس کے حامیوں کے حوصلے کو پست کر دیا۔ تو انقلاب کو رفتار دینے کا عمل اس طرح سے انجام پایا۔
یہ بھی بڑا اہم نکتہ ہے کہ اس پہلے قدم کے بعد میرے خیال میں شاید پانچ چھے مہینے نہیں گزرے تھے کہ خود کفیلی کے جہاد کے ادارے کی تشکیل ہوئي۔ فوج میں وہ پہلی جگہ جہاں خود کفیلی کا جہاد شروع کیا گيا، فضائیہ تھی۔ یہ قدم اٹھانے کا جذبہ ہے، یعنی وہی جذبہ جو اس بات کا سبب بنتا ہے کہ دربار اور شاہ سے متعلق فوج کے اندر سرگرم انسان اپنے آپ کو رہا کرائے اور آ کر انقلابیوں سے جڑ جائے، یہ جرئت کا جذبہ، یہ روحانی توانائي اور روحانی طاقت، یہ وہی جذبہ ہے جو کسی دوسرے میدان میں، جو تعمیر کا میدان ہے، ایک بار پھر آگے بڑھتا ہے اور خودکفیلی کا جہاد شروع کرتا ہے۔ وہ پہلی جگہ جہاں خودکفیلی کا جہاد شروع ہوا، فضائیہ تھی۔ یہ واقعہ بھی بہت اہم واقعہ ہے، فضائیہ کے اندر یہ سوچ پیدا ہونا کہ اس کے افراد، سازوسامان، ہتھیار اور دیگر وسائل کو خود وہ تیار کریں گے، پرزے بنائیں گے، بگڑ چکے پرزوں کی مرمت کریں گے اور امریکی ٹیکنالوجی کے پیچیدہ اسرار و رموز کو خود منکشف کریں گے، جس کی انھیں اس وقت تک اجازت نہیں تھی، اور کل ملا کر یہ کہ وہ خود کام میں مصروف ہو جائیں گے، یہ اپنے آپ میں ا یک بڑا قدم تھا۔
اس بڑے قدم سے پہلے بلکہ اس تحریک سے پہلے، فضائيہ پوری طرح سے امریکیوں کے ہاتھ میں تھی۔ فضائیہ میں مومن افراد کافی تھے، میں خود بعض کو پہچانتا تھا، انقلاب سے پہلے فضائیہ کے بعض اہلکاروں سے میرے روابط تھے، ہم آپس میں دوست تھے، آتے جاتے تھے۔ تو فضائیہ میں بے شمار مومن اہلکار تھے لیکن فضائیہ کے اعلی عہدیدار، امریکا سے جڑے ہوئے تھے۔ فضائیہ کے طیارے اور دیگر وسائل امریکا کے تھے، امریکا کی ملکیت تھے، جی ہاں! ایران نے ان کے پیسے دیے تھے اور انھیں خریدا تھا، طیارہ، فلاں ائير بیس کے فلاں ہینگر میں تھا لیکن امریکا کا تھا، اس کا اختیار امریکا کے ہاتھ میں تھا، اس کے کمانڈروں کا کنٹرول بھی امریکا کے ہاتھ میں تھا۔ یہ باتیں جو میں عرض کر رہا ہوں، مستند ہیں اور دستاویزات کے ساتھ ہیں، مطلب نعرے وغیرہ نہیں ہیں۔ محمد رضا شاہ کی ماں نے اپنی سوانح حیات میں کہا ہے کہ ایک دن محمد رضا میرے پاس آيا اور اس نے کہا کہ یہ سلطنت بھاڑ میں جائے، میں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس ملک کا شاہ ہوں، اس ملک کا سپریم کمانڈر ہوں، امریکی آتے ہیں، ہمارے طیارے اٹھا کر ویتنام لے جاتے ہیں اور مجھے خبر ہی نہیں ہوتی! یہ صورتحال تھی! امریکا کی ملکیت ہونے کا مطلب یہ ہے۔ اگر اسے خبر بھی ہوتی تو اس میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ اجازت نہ دیتا، ضرور اجازت دیتا لیکن وہ لوگ اجازت بھی نہیں لیتے تھے، اگرچہ انھیں یقین تھا کہ ان کا مطالبہ مسترد نہیں ہوگا لیکن اس کے باوجود وہ اس ملک کے شاہ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے تھے کہ اس سے یہ اجازت لیں کہ جناب ہم آپ کے اس جنگي طیارے کو ویتنام لے جانا چاہ رہے ہیں تاکہ وہاں کے عوام کے خلاف استعمال کریں، مطلب یہ کہ فضائيہ کی صورتحال کچھ ایسی تھی۔
اس فضائيہ کو اس کے مومن اہلکاروں نے، امریکی سے ایرانی فضائیہ میں تبدیل کر دیا۔ فضائيہ کو ایرانی بنا دیا، وہ ایرانی ہو گئي، اس کے کمانڈر ایرانی، اس کے اہلکار ایرانی، اس کے فیصلہ کرنے والے ایرانی، اس کے وسائل ایرانی، جی ہاں! امریکا کے تیار شدہ تھے لیکن ایران کے تھے، اب ان میں، ان وسائل کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں تھی۔ کچھ مدت تک کچھ لوگ ہمارے ان ایف-چودہ طیاروں کو غفلت کی بنا پر، ان شاء اللہ وہ خیانت نہیں غفلت ہی تھی، واپس دینا چاہتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہمیں ایف-چودہ کی ضرورت نہیں ہے! خیر انھیں روک دیا گيا۔ فضائيہ ایران کی ہو گئی، ایرانی ہو گئی۔ تو فضائیہ کا اس طرح کا ماضی ہے، یعنی فورس کے اندر اور فورس کی کارکردگي میں آگے بڑھانے اور تبدیلی لانے کی طاقت، اس طرح کے روشن اور نمایاں نمونے ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔
خیر تو ہم نے کہا کہ رفتار عطا کرنے والا عنصر ضروری ہے، یہ فضائيہ، انقلاب کو رفتار عطا کرنے والا عنصر تھی۔ فضائیہ، ایک خاص پوزیشن میں انقلاب کی کامیابی کو رفتار دینے والا عنصر بن گئي اور دوسروں پر خود اپنے اور فوج کے انحصار کے خاتمے کو رفتار عطا کرنے والا عنصر بن گئي، وہ رفتار عطا کرنے والی بن گئی لیکن میں اب اس معاملے کو عمومیت دینا چاہتا ہوں۔ ہر زمانے میں رفتار دینے والے کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں؟ اس لیے کہ بڑے اور بامقصد اقدامات اور تحریکیں، بہت سارے مواقع پر سست رفتاری یا جمود کا شکار ہو جاتی ہیں، چاہے پوری طرح سے نہ رک جائيں لیکن سست رفتاری کا شکار تو ہو ہی جاتی ہیں، بڑے اقدامات اور بڑی تحریکیں اس طرح کی ہوتی ہیں۔دنیا کے بہت سے انقلابوں کو جب آپ دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ پہلے انقلاب آيا، گہرے اور بنیادی بدلاؤ کے ارادے سے کوئي کام انجام پایا، کچھ سال بعد وہی پہلے جیسے حالات پیدا ہو گئے۔ میں اپنی صدارت کے زمانے میں افریقا کے ایک ملک کے دورے پر گيا(2) جس پر پہلے پرتگالیوں کی حکمرانی تھی۔ ایک علاقائي انقلابی صدر(3) اس ملک میں برسر اقتدار تھا، ہم نے وہاں جا کر جو سرکاری مشینری دیکھی، وہی مشینری جو ہماری میزبانی کر رہی تھی اور ہماری اس کے ساتھ رفت و آمد تھی، وہ پوری طرح سے اسی پرتگالی کمانڈر کی طرح تھی، جیسے ان سیاہ فام حضرت کی جگہ جو اس وقت یہاں کے صدر بن بیٹھے ہیں، گویا ایک پرتگالی کمانڈر بیٹھا ہو، بغیر کسی تبدیلی کے بالکل وہی! ایسا ہی تو ہے۔ مطلب یہ کہ سماجی تحریکیں اس طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں: سست رفتاری کی مصیبت، ٹھہر جانے کی مصیبت، پسپائي کی مصیبت۔ اگر یہ تحریک جاری رہنا چاہتی ہے تو اسے رفتار عطا کرنے والے عنصر کی ضرورت ہے۔ تو یہ رفتار دینے والا کون ہیں؟ میں عرض کروں گا۔
البتہ یہاں کے اسلامی انقلاب میں دوسری جگہوں سے ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے؛ اسلامی انقلاب کے اندر کچھ ایسی چیزیں ہیں جن میں جاذبیت اور کشش پائي جاتی ہے اور جاذبیت، نئي نمودوں کو خود میں جذب کرتی ہے، اگر کچھ چیزیں اس سے دور بھی ہو جائيں تو وہ نئی نمودیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں۔ جاذبیت کی کیا مثال ہے؟ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ کے اہداف، روش اور امنگوں کا وسیع و عریض میدان۔ اسلامی جمہوریہ میں انتہائي دشوار میدانوں میں ظلم سے مقابلہ ہے، ظالم سے مقابلہ ہے، دنیا کے اول درجے کے غنڈوں کی منہ زوریوں کے خلاف استقامت ہے، عبادت کی محراب، مسجد جمکران، شبہائے قدر کی شب بیداری، اربعین کی پیدل زیارت اور ماہ رجب کا اعتکاف بھی ہے۔ آپ کام کے وسیع میدان کو دیکھیے، ظلم سے مقابلہ بھی ہے، نفس سے جہاد بھی ہے، ملک کے مستقبل پر توجہ بھی ہے، خدا، روحانیت، ذکر اور بہشت وغیرہ پر توجہ بھی ہے۔ خود یہ چیز اس بات کا سبب بنتی ہے کہ نئي نمودیں، الگ ہونے والی چیزوں کی جگہ لیتی رہیں، سست رفتاری پیدا نہ ہونے پائے یا اگر ہو بھی تو بہت کم ہو۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ بالکل بھی سست رفتاری پیدا نہیں ہوتی لیکن اسلامی انقلاب کی ذاتی فطرت، اپنے اندر، اپنی ذات میں اس طرح کی فطرت ہے۔
بنابریں رفتار عطا کرنے والا عنصر ضروری ہے۔ یہ عنصر کس لیے چاہیے؟ اس لیے کہ رفتار کم نہ ہونے پائے، بڑے کاموں کے مقابلے میں رعب و وحشت کا جذبہ پیدا نہ ہونے پائے، جب کوئي بڑا کام انجام پانے والا ہو تو اسے انجام دینے والے افراد میں ناتوانی اور کمزوری کا احساس پیدا نہ ہونے پائے، رفتار عطا کرنے والا عنصر، یہاں پر اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
رفتار عطا کرنے والا کون ہے اور اس کا کام کیا ہے؟ رفتار عطا کرنے والے کا کام یہی ہے جو ہم نے عرض کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ رفتار عطا کرنے والا کون ہے؟ میری نظر میں رفتار عطا کرنے والا عنصر وہی ہے جسے ہم اہم شخصیات یا خواص کہتے ہیں، معاشرے کی اہم شخصیات۔ خواص کا کیا مطلب ہے؟ کیا خواص کا مطلب ہے مشہور لوگ، تعلیم یافتہ افراد اور دانشور حضرات؟ نہیں، خواص کا یہ مطلب نہیں ہے۔ خواص کا مطلب ہے وہ افراد جو اپنے کام میں، سوچ کے ساتھ، شناخت کے ساتھ اور تشخیص کے ساتھ کام کرتے ہیں اور آس پاس کے ماحول کے تابع نہیں ہوتے، خواص ایسے لوگوں کو کہتے ہیں۔ یہ خواص، انقلابی کارکنوں، مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد، فوجیوں، علمائے دین اور مختلف گروہوں کے درمیان ہو سکتے ہیں، یہ میڈیا کے لوگوں کے درمیان ہو سکتے ہیں، یہ اسٹوڈنٹس رہنماؤں کے درمیان ہو سکتے ہیں، سیاسی کارکنوں کے درمیان ہو سکتے ہیں۔ میں نے اس سے پہلے، کئی برس پہلے کبھی خواص کے بارے میں ایک تفصیلی گفتگو کی تھی۔(4) تو خواص کا مطلب یہ ہے۔ بحمد اللہ ہمارے ملک میں اور ہماری قوم میں خواص، اقلیت میں نہیں ہیں، وہ لوگ جو پلاننگ کے ساتھ، سوچ سمجھ کر، تشخیص کے ساتھ کام کرتے ہیں، اقدام کرتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں، ملکی سطح پر بڑی تعداد میں ہیں اور یہ انقلاب کی برکتوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے ملکوں میں ایسا نہیں ہے۔ میں خود تو نہیں گیا ہوں لیکن دنیا کے کئي بڑے اور مشہور ملکوں کے بارے میں رپورٹیں موجود ہیں کہ جو لوگ گلی کوچوں اور سڑکوں پر چلتے پھرتے ہیں انھیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ دنیا میں ان کے آس پاس کیا ہو رہا ہے، وہ صرف اس سوچ میں رہتے ہیں کہیں سے دو روٹی حاصل کر لیں یا تھوڑا بہت اپنا مال بڑھا لیں۔ ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے، ہمارے ملک میں جو لوگ تشخیص کے ساتھ کام کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کیا کر رہے ہیں، وہ محاذ آرائي کو سمجھتے ہیں، دشمن کو پہچانتے ہیں، طریقوں کو جانتے ہیں، دوست کو پہچانتے ہیں، ایسے لوگ کم نہیں ہیں، کافی زیادہ ہیں، یہ لوگ کردار ادا کر سکتے ہیں، یہ لوگ حساس مواقع پر ملک کے لیے کام کر سکتے ہیں۔
ان کی ذمہ داری، سنگين ہے، میں یہ بات آپ سے اور پوری قوم سے کہنا چاہتا ہوں۔ یہ لوگ، جنھیں ہم خواص کہتے ہیں، یعنی وہ افراد جو صاحب رائے ہیں، جن کی سوچ، غور و فکر کے ہمراہ ہوتی ہے، تشخیص کے ساتھ ہوتی ہے، جو حالات کو سمجھتے ہیں، جانتے ہیں، انھیں معلوم ہوتا ہے کہ کیا کام ہو رہا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ سر جھکائے بیٹھے رہیں اور جہاں سب لوگ جا رہے ہیں، وہیں یہ لوگ بھی چلے جائيں، ان پر بھاری ذمہ داری ہے، انھیں سماج کی عمومی حرکت کی سمت کی حفاظت کرنی چاہیے اور اسے راستے سے نہیں ہٹنے دینا چاہیے۔ اگر خواص نے اس فریضے سے غفلت برتی تو ایسے واقعات رونما ہوں گے جو اقوام پر تاریخی ضربیں لگائيں گے، اسلام کی تاریخ میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام کے زمانے میں، امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں، امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ایسے افراد تھے جو خواص میں شامل تھے، بات کو سمجھتے تھے، بات کی حقیقت کو سمجھتے تھے لیکن ضروری موقع پر، بروقت موجود نہیں رہتے تھے، شک میں مبتلا ہو جاتے تھے، کشمکش میں پھنس جاتے تھے، تساہلی سے کام لیتے تھے اور کبھی کبھی تو غداری کر بیٹھتے تھے اور دوسروں پر بھی اثر انداز ہوتے تھے، ان لوگوں پر بھی جو ماحول کے تابع ہوتے ہیں، منفی اثر ڈالتے تھے، اس طرح کے افراد بھی رہے ہیں۔ جنگ صفین میں کچھ لوگ، قرآن کو نیزے پر اٹھائے جانے سے کشمکش کا شکار ہو گئے اور انھوں نے دوسروں کو بھی شک میں ڈال دیا۔ کچھ روایتیں ہیں، البتہ میں پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتا، کہ ان میں سے بعض افراد نے یہ کام دانستہ طور پر کیا تھا، ان سے غلطی نہیں ہوئي تھی بلکہ وہ دشمن سے ساز باز کی وجہ سے ایسا کر رہے تھے! ایسا بھی کہا جاتا ہے، ممکن ہے کہ اس طرح کی صورتحال پیش آئے۔
اس لیے میں آپ سے عرض کروں کہ آج دشمن محاذ کے پاس خواص کے لیے ایک خاص منصوبہ ہے، خود ہمارے ملک میں خواص کے لیے اور بہت سی دوسری جگہوں پر خواص کے لیے دشمنوں کے پاس منصوبے ہیں کہ انھیں کشمکش اور شک و شبہے میں مبتلا کر دیں، فیصلے کی قوت چھین لیں، ممکنہ طور پر انھیں دنیا کی لذتوں اور چکاچوندھ سے آشنا کر دیں، انھیں اس طرح مسحور کر دیں کہ یہ ضروری مواقع پر، حساس جگہوں پر، جہاں کوئي اقدام کرنا ضروری ہے، اقدام نہ کریں اور رفتار عطا کرنے کا کام، جس کی خواص سے توقع رہتی ہے، انجام ہی نہ پائے، اس کے لیے ان کے پاس منصوبے ہیں۔
خواص کی ذمہ داری یہ ہے: ضروری مواقع پر دشمن کی جانب سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیں، مسائل کو بیان کریں، ان کی تشریح کریں، میں نے تشریح کے جہاد کی جو بات کی ہے(5) وہ اسی تناظر میں کی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ خود فضائيہ میں ایسے افراد تھے، ایسے لوگ تھے، جن شہیدوں کی تصاویر یہاں ہے اور ہم انھیں قریب سے جانتے تھے، ان میں سے بعض افراد، دوسروں سے بات کرنے والے، انھیں سمجھانے والے، دلیل کے ساتھ ٹھوس بات کرنے والے، اثر ڈالنے والے تھے اور انھوں نے ضروری مواقع پر اپنا کام کیا۔ قرآن مجید میں اس کا ایک نمونہ ہے جو میری نظر میں بہت اہم ہے، وہ اس مومن شخص کا قصہ ہے جس کا ذکر سورۂ یٰسین میں ہے: "وَ جاءَ مِن اَقصَا المَدینَۃِ رَجُلٌ یَسعىٰ قالَ یا قَومِ اتَّبِعُوا المُرسَلین"(6) جب پروردگار عالم کی طرف سے اس قوم کی طرف تین پیغمبر مبعوث کیے گئے اور لوگ ایمان نہیں لائے بلکہ ان کے خلاف سازش کرنے لگے اور انھوں نے انھیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو ایک شجاع اور مومن مرد نے بڑی تیزی سے خود کو لوگوں کی بھیڑ تک پہنچایا اور کہا: "یا قَومِ اتَّبِعُوا المُرسَلین" ان کی پیروی کرو۔ اِتَّبِعوا مَن لا یَسئَلُکُم اَجراً وَ ھُم مُھتَدون(7) پھر کہتا ہے، میں جو نکتہ بیان کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے: وَ ما لِیَ لا اَعبُدُ الَّذی فَطَرَنی وَ اِلَیہِ تُرجَعُونَ * اَ اَتَّخِذُ مِن دونِہ آلِھۃً ... اِنّی آمَنتُ بِرَبِّکُم فَاسمَعون(8) بلند آواز میں، ٹھوس طریقے سے اپنے ایمان کا اظہار کرتا ہے۔ خواص کو صراحت سے کام لینا چاہیے، صاف الفاظ میں بات کرنی چاہیے، لوگوں کے ذہنوں سے شکوک و شبہات کو دور کرنا چاہیے، ذو معنی، دو طرح کی اور شک بھرے انداز میں بات نہیں کرنی چاہیے۔ اِنّی آمَنتُ بِرَبِّکُم فَاسمَعون سن لو! میں ایمان لے آيا ہوں۔ یہ اس کام کی ایک مثال ہے جو خواص کر سکتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ہی زمانے میں کسی ایک خاص مسئلے کے طور پر کوئي بات عرض کرنا چاہیں تو میرے خیال میں وہ یہی غزہ کا معاملہ ہے۔ عالم اسلام کی اہم شخصیات یا خواص کی ذمہ داریاں ہیں، خواص سے مراد علماء ہیں، دانشور ہیں، سیاستداں ہیں، میڈیا والے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکا اور اس کی جانب سے صیہونی حکومت کی پشت پناہی، انسانیت اور بشریت پر کیسے وار کر رہی ہے، وہ یہ دیکھ رہے ہیں۔ انھیں اپنے لوگوں کو بتانا چاہیے، تفصیل سے بتانا چاہیے، لوگوں کو اس کی مخالفت کی ترغیب دلانی چاہیے، عوام کے اندر ایک عمومی مطالبہ پیدا کرنا چاہیے تاکہ ان کی حکومتیں، صیہونی حکومت پر کاری ضرب لگانے پر مجبور ہو جائيں، کاری ضرب کیا ہے؟ ہم نہیں کہتے کہ وہ جنگ میں شامل ہو جائيں اور وہ ہوں گي بھی نہیں اور شاید بہت سی حکومتوں کے لیے یہ ممکن بھی نہ ہو مگر وہ اقتصادی رابطے ختم کر سکتی ہیں، یہ کاری ضرب ہے۔اگر قوموں کے لوگ اپنی حکومتوں سے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کریں تو یہ کام ہو سکتا ہے اور یہ کام مؤثر ہے۔ اقوام اس سلسلے میں حکومتوں کو لائن پر لا سکتی ہیں، انھیں مجبور کر سکتی ہیں کہ وہ ظالم اور بھیڑیا صفت ظالم کی پشت پناہی نہ کریں جو اس طرح عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں پر حملے کر رہی ہے اور صرف کچھ ہی مہینے میں کئي ہزار لوگوں کو قتل کر سکتی ہے۔ لوگ کچھ ایسا کریں کہ اس حکومت کی حمایت نہ ہونے پائے۔ میں نے یہاں تک سنا ہے کہ بعض اسلامی ممالک صیہونی حکومت کو ہتھیار دے رہے ہیں، بعض ممالک مختلف طرح کی معاشی مدد کر رہے ہیں، اسے روکا جائے۔ یہ قوموں کا کام ہے، اقوام دباؤ ڈال سکتی ہیں، حکومتوں کو مجبور کر سکتی ہیں۔ اقوام کو کون بیدار کر سکتا ہے؟ خواص۔ دیکھیے خواص کا کردار کتنا اہم ہے اور کس طرح وہ اتنے اہم واقعے کو اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں اور اپنے حساب سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔
ہمارے اپنے ملک میں الیکشن کا معاملہ سامنے ہے۔(9) خواص، اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یقینی طور پر اگر ملک میں انتخابات پرشکوہ طریقے سے منعقد ہوں تو یہ قومی اقتدار کو مزید بہتر طور پر ظاہر کریں گے اور قومی اقتدار، قومی سلامتی کا سبب ہے۔ یعنی جب دشمن محاذ عوامی مشارکت کو دیکھتا ہے، نظام کی طاقت کو دیکھتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ یہ ملک، ایک طاقتور ملک ہے، اس کے عوام پوری طرح سے تیار ہیں تو دشمن کا خطرہ بے اثر ہو جاتا ہے، مطلب یہ کہ قومی اقتدار، قومی سلامتی کو وجود میں لاتا ہے، یہ بہت ہی گرانقدر اور اہم چیز ہے۔ اس مسئلے میں بھی خواص کردار ادا کر سکتے ہیں، الیکشن کو بھرپور بنا سکتے ہیں۔ سارے انقلابی کام، اسی طرح کے ہیں، کچھ دن کے بعد 22 بہمن (11 فروری) کی ریلیاں ہونے والی ہیں، ان شاء اللہ ہمارے عزیز عوام ان میں بھرپور طریقے سے حصہ لیں گے۔ یہ بھی قومی اقتدار کا مظہر ہے۔ ان 45 برسوں میں لوگ ہر سال، بغیر کسی ناغے کے پورے ملک میں، چھوٹے بڑے شہروں میں یہاں تک کہ دیہی علاقوں میں 22 بہمن کو سڑکوں پر آئے، انھوں نے نعرے لگائے، اپنے انقلاب کا دفاع کیا، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نام کو اونچا کیا اور ان کی پیروی اور ان سے اپنی بیعت کی تجدید کی۔ اس سال بھی ان شاء اللہ خدا کے فضل و کرم سے ایسا ہی ہوگا۔
خداوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ایرانی قوم کو کامیاب کرے، سربلند کرے، اسے عزیز و قوی بنائے، ایرانی قوم کے دشمن کی سرکوبی کرے، قوم کو اس کے دشمنوں پر فتحیاب کرے۔ ان شاء اللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے آپ تمام عزیزوں اور اسی طرح دیگر تمام مسلح فورسز، فوج، سپاہ، پولیس، رضاکار فورس اور ديگر فورسز کو اللہ اپنے لطف و کرم سے نوازے اور الہی ہدایت اور الہی نصرت آپ سبھی کے شامل حال ہو۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کے آغاز میں، جو 8 فروری 1979 کو فضائيہ کے ایک دستے کی جانب سے امام خمینی رحمت اللہ کی تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر منعقد ہوئي، اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائيہ کے کمانڈر بريگيڈیر حمید واحدی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
(2) جنوری 1986 میں موزمبیق کا دورہ
(3) موزمبیق کے قوم پرست عسکری و سیاسی رہنما سامورا ماشیل (1933-1984) جو 1975 سے 1986 تک اس ملک کے پہلے صدر تھے۔
(4) محمد رسول اللہ 27ویں بريگيڈ کے کمانڈروں سے ملاقات میں خطاب (9/6/1996)
(5) منجملہ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کے موقع پر بعض ذاکرین اور مداحوں سے ملاقات میں خطاب (23/1/2022)
(6) سورۂ یٰس، آیت 20، اور (اسی دوران) ایک شخص شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا اور کہا: اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔
(7) سورۂ یٰس، آیت 21، ان لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور خود ہدایت یافتہ بھی ہیں۔
(8) سورۂ یٰس، آیت 22، 23 اور 25، میں کیوں اس ہستی کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے؟ (22) کیا میں اسے چھوڑ کر ایسے خداؤں کو اختیار کروں ... میں تو تمھارے پروردگار پر ایمان لے آیا ہوں تم میری بات (کان کھول کر) سنو (اور ایمان لے آؤ)۔
(9) مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے بارہویں دور کے اور مجلس خبرگان (ماہرین اسمبلی) کے انتخابات جو پہلی مارچ 2024 کو منعقد ہوں گے۔